Rs. 200 shipping charges per order.
Sale!

کئی چاند تھے سر آسمان شمس الرحمٰن فاروقی

Original price was: ₨ 3,500.Current price is: ₨ 2,125.

Add to Wishlist
Add to Wishlist
دنیا کے بہترین ناولوں میں سے سب سے اچھا ناول اور سب سے زیادہ سیل ہونے والا ناول کئی چاند تھے سر آسماں یہ ناول کا نام سنتے ہی لوگوں کو یہ خریدنے میں بہت زیادہ دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ ناول ہم لے لیں اور اس ناول کا مطالعہ کریں اور یہ ناول بہت اچھا ناول ہے سب سے زیادہ سیل ہونے والا ناولوں میں سے ایک ناول یہ ہے
Reading Age
Everyone Years
Language
Urdu
Publisher
Qalam Foudation International
Date Published
Print Length
764 Pages
Dimensions
Weight
1875 g
ISBN 10
9789695680681

Customer reviews

0.00
Based on 0 review
5
0%
4
0%
3
0%
2
0%
1
0%

Description

’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی اُردو دنیا کی ایسی عہدساز شخصیت ہیں جن کے کام، علمی توفیقات اور تخلیقی امتیازات کا ہر سطح پراعتراف کیا گیا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں ’’پدم شری ‘‘ جیسا بڑا ایوارڈ دیا تو حکومت پاکستان کی طرف سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ خلاق شاعر، مجتہد نقاد، دانشور اور شب خون جیسے رجحان ساز رسالے کے مدیر اور سب سے بڑھ کر ایسے ناول نگار جنہوں نے اپنے فن پارے کو تہذیبی مرقع بنا کر اس صنف پر امکانات کے نئے آفاق کھول دیے۔ شمس الرحمٰن فاروقی ۱۵جنوری ۱۹۳۶ء کو پرتاب گڑھ، یوپی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علم وفضل کی قدیم روایت اپنے بزرگوں سے وراثت میں پائی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ۱۹۵۳ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے ۔ ادبی رسالہ’’شب خون‘‘ نکالا اور کئی نسلوں کے ادیبوں کی تربیت کی۔ شمس الرحمٰن فاروقی ’’گنج سوختہ‘‘، ’’سبز اندرسبز‘‘، ’’چارسمت کا دریا‘‘، ’’آسماں محراب‘‘، ’’سوار اوردوسرے افسانے‘‘، ’’افسانے کی حمایت میں‘‘، ’’لفظ ومعنی‘‘، ’شعر شور انگیز‘‘، ’’عروض، آہنگ اور بیان‘‘، ’’اُردو غزل کے اہم موڑ‘‘، ’’ہمارے لیے منٹو صاحب‘‘، ’’قبض زماں‘‘ اور زیر نظر شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ کے مصنف ہیں۔

—-

مدتوں بعد اُردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہند و پاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا اس کا مقابلہ اس ہلچل سے کیا جائے جو ’’امرائو جان ادا‘‘ نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی؟ اور یہ ناول ایک ایسے شخص کے قلم سے ہے جسے اوّل اوّل ہم نقاد اور محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے بطور ناول نگار خود کو منکشف کیا ہے اور محقق فاروقی یہاں پر ناول نگار فاروقی کو پوری پوری کمک پہنچا رہا ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ تحقیق و تنقید اور تخلیق کا کوئی ساتھ نہیں۔ لیکن زیرِ نظر ناول کو اس بات کی، جسے قاعدئہ کلی کے طور پر دیکھا گیا ہے، استثنائی صورت سمجھنا چاہیے۔ یہاں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے رُوپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں لہٰذا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کچھ الگ طرح کا ناول ہے۔ ہم اسے زوال آمادہ مغلیہ سلطنت کے آخری برسوں کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کو جزئیات پر مکمل مہارت ہے۔ انھوں نے وزیر خانم کی زندگی کو اس درجہ لطافت، نزاکت اور تمام باریک جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری تہذیب، جسے ہند مسلم تہذیب کہیے اور اس کے آخری دنوں میں اس کی چمک دمک اور برگ وبار کا پورا نقشہ آجاتا ہے…. اور وزیر خانم کا کردار بھی کیا کردار ہے کہ وہ تنہا اپنی ذات میں اس تہذیب کا مجسم وجود معلوم ہوتی ہے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “کئی چاند تھے سر آسمان شمس الرحمٰن فاروقی”

Your email address will not be published. Required fields are marked *