Description
سجاول خان را نجها
7 ستمبر 2020 کو ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے!
مرحوم صحافت میں اس طالبعلم کے پہلے استاد تھے۔ آپ سے تعارف 1998 میں ایک مشہور اخبار کے دفتر میں ہوا۔ آپ ایک مردہ سے رسالہ کے ایڈیٹر بن کے آئے اور کچھ عرصے میں اسے مقبول عوامی میگزین بنا ڈالا۔ تب ایم اے کا یہ طالب علم ملحقہ اخبار میں نیم صحافی تھا۔ آپ نے کچی کی ابھی تحریریں دیکھیں تو بنا سفارش گزارش اس طالب علم کو حلقہ وارادت میں شامل کر لیا۔ معاوضہ تو بڑھوایا ہی ، حوصلہ اتنا بڑھا یا کہ رفتہ رفتہ خود ان کی فکر شخصیت بلکہ شعبے تک سے باقی ہوتا گیا۔ رستے الگ ہوئے رشتہ وہی رہا۔ اعتماد، احترام ، محبت اور تجس سے گندھا۔ بڑا وصف آزادی اظہار کا قائل ہوتا تھا اتنا کہ اکثر ترقی پسندوں کو مات – ربع صدی قبل، شدید اختلاف کے باوجود مجھ 20 برس کے لونڈے کی بیبا کا نہ صحافتی سٹوریز کو من وعن چھاپ دیتے بلکہ اکثر پر توصیفی نوٹ بھی تحریر کرتے۔
عجیب پر اسرار انسان تھے جرمنی سویڈن اور نیورک کی یونیورسٹیز سے پڑھ کے آئے۔ ایک زمانہ کی سیر کی۔ جسم تھاتا گیا فکری سفر نہ تھا۔ اولا اردو ادب کا میلہ سجایا ایسا کہ درجنوں کتب لکھیں سیکڑوں تراجم کیسے اور ہزاروں کالمز اور مضامین کہ جن کے مداح صف اول کے ادیب دانشور ہیں۔ کیا ہی شکستہ نثر لکھتے تھے مگر جلد ادب گئے اور تصوف میں دلچسپی بڑھنے لگی اتنی کہ سلسلہ شہابیہ سے احمد رفیق اختر تک بہت کچھ دستاویز بناتے گئے۔ باطنی تطہیر کے سفر میں نفسیاتی پیچیدگیوں سے پالا پڑا تو علم نفسیات میں دلچسپی بڑھنے لگی اتنی کہ نسل نو کو نفسیات کی گھمن گھیریوں سے نکالنے کو موٹیویشنل پیکر بن گئے۔ بیسیوں تقاریب ، ہزاروں نوجوان خطاب کوری ۔ مگر قدم اس چکا چوند میں بھی نہ رک پائے ۔ آخری عشرہ ڈیڑھ میں وہ انفرادی مشاہدہ کے بجائے سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق کے ذریعے ذہن انسانی کی اجتماعی پیچیدگیوں پہ سوچنے کھوجنے لگے تھے۔ ان ذہنی نفسی ، اخلاقی و کائناتی سرچشموں کی کھوج ایسی بڑھی کہ علمی ادبی حلقوں بلکہ دوستانہ مجالس تیک سے کٹ گئے۔ یوں اسلام آباد سے یورپ تک دسیوں علمی صحافتی اداروں میں جو ہر دکھانے والے رانجھا صاحب اقتدار ملت پبلی کیشنز ” کے پلیٹ فارم سے جدید تحقیق کے اظہار کے لیے ایک بار پھر سے ات گئے اور دوجے ہر مشغلے سے کٹ گئے۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
Reviews
There are no reviews yet.